رمضان
کے روزوں کا مقصد
الحمداللہ ماہ رمضان کا آج یعنی
25اپریل2020ء سے آغاز ہوچکا ہے،ماہ رمضان کا آغاز اس بار ایسے وقت ہوا جبکہ ساری
دنیا میں کورونا وائرس کاقہر جاری ہے لوگ اپنے اپنے گھروں میں بند ہیں اور خوف
وپریشانی کے عالم میں اپنے رب کے حضور دعائیں کررہے ہیں کہ اے مالک کریم اپنے کرم
سے ہم سب کی حفاظت فرما اور اس مہلک مرض کا جلداز جلد خاتمہ فرما۔
مشکلات ہمیشہ انسان کو مضبوط بنانے کے لیے ہی
آتی ہیں۔قرآن میں کہا گیا کہ ہاں ہر مشکل کے بعد آسانی ہے،کیا پتہ اللہ تعالیٰ اس
مشکل گھڑی میں ہمارا امتحان لینا چاہتا ہو۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اس پریشانی اور
غم کے حالات میں ہم اپنے رب سے اپنے تعلق کو مضبوط کریں، اللہ رب العزت نے ہمیں
ماہ رمضان کے ذریعے اپنے گناہوں سے معافی اور اپنے اندرتقویٰ پیدا کرنے کی ایک اور
مہلت دی ہے تاکہ ہم اپنے تعلق کو اس سے مضبوط کریں،ا ُس سے اپنے اور ساری دنیا کے
لئے خیر کی دعائیں مانگیں۔ہر کام کا کوئی نا کوئی مقصد ہوتا ہے۔اس طرح ہر عبادت کا
بھی کچھ مقصد ہوتا ہے۔آئیے جانے ماہ رمضان کے روزوں کاکیا مقصد ہے؟
قرآن کا ارشاد ہے ’اے ایمان والو!ہم نے تم پر رمضان کے روزے فرض کئے جیسے
کہ تم سے پچھلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے،تاکہ تم میں تقویٰ اور پرہیزگاری کی صفت
پیدا ہو (البقرہ:183)“اس آیت میں اللہ نے رمضان کے روزے رکھنے کا حکم دیا ہے اور
اس بات کو بھی بیان کیا ہے کہ روزے پچھلی امتوں پر بھی فرض تھے اور تم پر بھی فرض
کئے گئے ہیں ساتھ ہی کھلے الفاظ میں روزوں کے مقصد کوبیا ن کیا گیا ہے کہ اس سے
تمہارے اند رتقوی یعنی پرہیزگاری،خداکا خو ف پیدا کرنا مقصود ہے۔یہ بات واضح ہوگئی
کہ دراصل رمضان کے روزوں کا مقصد ہماری تربیت ہے،اس کے ذریعے ہمارے اندر پرہیز
گاری کی صفت پیدا ہو،ہم صبر والے بن جائیں،ہم اللہ رب العزت کے فرمانبردار ہوجائیں
اور ہمارے اندر نیکی کرنے اوربرائی سے بچنے جیسی صفت فروغ پائیں۔
حدیث شریف میں روزوں کے مقصد سے متعلق بیان ہوا
ہے ”حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،ہر گندگی کو
دور کرنے کے لیے اللہ نے کوئی نہ کوئی چیز بنائی ہے اور جسم کو (روحانی گندگی اور
بیماریوں سے)پاک کرنے والی چیز روزہ ہے اور روزہ آدھا صبر ہے۔(ابن ماجہ)
روزہ دراصل روح کو پاکیزگی عطا کرتا ہے،انسان
میں صبر اور ضبط کی عادت پیدا کرتا ہے اور اپنے نفس پر قابو پانا سکھاتا ہے تاکہ
انسان ان اصولوں پر اپنی زندگی گزارے،نفس پر قابو پانے والی جو عبادت ہے وہ روزہ
ہے۔روزے کے ذریعے انسان اپنے آپ پر تو قابو پاتا ہی ہے ساتھ ہی وہ اللہ کی عظمت کا
اعتراف کرتا ہے خدا کے دین پر جم جاتا ہے اور لوگوں کے سامنے وہ کھلے انداز میں
اللہ کے کلمہ کو بلند بھی کرتا ہے۔
روزہ کی روح کیا ہے روزہ کا مقصود دراصل صبح سے
شام تک انسان کو بھوکے رکھنا نہیں بلکہ برائیوں سے روکنا اور نیکیوں کی طرف راغب
کرنا ہے اس متعلق حدیث شریف میں ارشاد ہو اہے ”حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں رسول اللہ
نے فرمایا:جس شخص نے (روزہ رکھنے کے باوجود)جھوٹ بات کہنا اور اس پر عمل کرنا نہ
چھوڑا تو اللہ کو اس کے بھوکا اور پیاسا رہنے سے کوی دلچسپی اور مطلب نہیں۔(بخاری
و مسلم)
روزوں کا اصل مقصد اب واضح ہوگیا ہے کہ یہ ماہ
رمضان کے روزے ہماری تربیت کرتے ہیں کہ ہم اللہ رب العزت کی عبادت کریں،اس کے
احکام بجا لائیں،اس کی اطاعت و بندگی کریں،نیکی کریں برائیوں سے بچے، سب کے حقوق
ادا کریں،اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کی قدر کریں اور اللہ کے شکر گزار بنے۔
رمضان
کے روزوں کے نتیجہ میں انسان نمازوں کا پابند ہوتا ہے،خصوصی عبادتوں کا عادی ہو
جاتا ہے،صبر و شکر کی صفت اس کے اندر پیدا ہوتی ہے وہ جھوٹ نہیں بولتا،سچ بولنے کا
عادی ہو جاتا ہے،وہ کسی کی غیبت نہیں کرتا،خدا کا خوف اس پر طاری ہوجاتا ہے،خدا سے
محبت اس کے اندر پیدا ہوتی ہے انسان اپنے نفس کی خواہشات پر قابو پاتا ہے۔
حدیث میں روزہ دار کے ایمان اور احتساب سے متعلق
بیان ہوا ہے ”جس نے روزہ رکھا ایمان اور احتساب کے ساتھ اس کے تمام پچھلے گناہ
معاف کردیے گئے۔(حدیث)
روزہ دار جب صدق ِدل سے روزہ رکھتا ہے تو اس کے
پچھلے گناہ معاف کردئے جاتے ہیں،روزہ ڈھال ہے شیطان سے بچنے کے لئے،روزہ میں آدمی
گالی نہیں دیتا،برائی سے اجتناب کرتا ہے اور زیادہ سے زیادہ نیکی کے کام کرتا ہے
صدقہ خیرات کرتا ہے اور ہر وہ عمل کرتا ہے جس سے کہ اس کا رب راضی ہو اور وہ اس کے
گناہوں کی بخش فرمادے۔
روزہ ہماری شفاعت کا ذریعے بھی بنے گا اس متعلق
حدیث میں کہا گیا ہے”حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں نبی ﷺ نے فرمایا روزہ اور
قرآن مومن کے لیے سفارش کریں گے،روزہ کہے گا اے میرے رب!میں نے اس شخص کو کھانے
اور دوسری لذتوں سے روکا تو یہ رکا رہا،تو اے میرے رب اس کے بارے میں میری سفارش
قبول فرما لے اور قرآن کہے گا اے رب! میں نے اس کو رات میں سونے سے روکا (تو یہ
اپنی میٹھی نیند چھوڑ کر تراویح میں قرآن پڑھتا رہا)اے رب!اس شخص کے بارے میں میری
سفارش قبول فرمالے،چناں چہ دونوں کی سفارشیں اللہ قبول کرلے گا۔(مشکوٰۃ)
آپ
صلی اللہ علیہ وسلم کا حال مبارک اس ماہ (رمضان)میں بہ نسبت دیگر مہینوں کے مختلف
ہوتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس ماہ میں صدقہ واحسان و تلاوت قرآن وصلاۃ ودعاء
واستغفار وتسبیح و ذکر واعتکاف وغیرہ عبادات وطاعات میں انتہاء درجہ کا مجاہدہ
فرماتے تھے۔
لہذا ہمیں بھی چاہیے کہ اللہ کے رسول صلی
اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو بطور نمونہ بنا کر اس مقدس ماہ میں زیادہ سے زیادہ قرآن
کی تلاوت میں وقت صرف کریں، کیونکہ اسی ماہ مبارک میں یہ کلام عظیم نازل ہوا، اور
یہی ہماری نجات کا ذریعہ بھی ہے۔ زیادہ سے زیادہ نوافل کا اہتمام کریں۔ روازنہ
نماز تراویح کی پابندی کی جائے۔ خیر کے کاموں میں ذوق و شوق سے حصہ لیا جائے۔
برائیوں سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی تاکید کریں۔ زیادہ سے زیادہ مال اللہ
کی راہ میں خرچ کریں تہجد کی نماز کا اہتمام کریں ذکر واذکار کرتے رہیں۔
اللہ ہم سب کو ماہ رمضان کے روزں کوپورے
اخلاص سے رکھنے اور اپنی عبادتوں میں خشوع وخضوع پید اکرنے کی توفیق عطا
فرمائیں۔آمین
ما شا اللہ مبارکباد اچھا مضمون لکھا ہے سلسلہ جاری رکھیں
جواب دیںحذف کریںشکریہ ڈاکٹر صاحب۔جزاک اللہ
حذف کریں