بلبل دکن پروفیسر فاطمہ پروین شخصیت اورخدمات
ڈاکٹر عزیز سہیل،حیدرآباد
۔بلبل دکن پروفیسر فاطمہ پروین : شخصیت اور خدمات
اگست 27, 2021
ڈاکٹر عزیز سہیل،حیدرآباد
جامعہ عثمانیہ حیدرآباد کی ایسی عظیم مادر علمیہ ہے جس نے زندگی کے تمام شعبوں میں کارِ ہائے نمایاں انجام دینے والے انمول رتن پیدا کئے۔ شعبہ اردو جامعہ عثمانیہ سے وابستہ اساتذہ بھی اردو تحقیق و تنقید، دکنی علوم کے فروغ اور دیگر مختلف حوالوں سے اردو زبان و ادب کی خدمت کرنے والوں میں پیش پیش رہے ہیں۔
بحیثیت اساتذہ شعبہ اردو جامعہ عثمانیہ، درس و تدریس، تحقیق و تنقید اور فروغ اردو کے ضمن میں یکساں طور پر جن صاحبان علم و ادب کو بلند مقام حاصل ہوا ہے ان میں ایک اہم نام پروفیسر فاطمہ بیگم (پروین) کا بھی ہے۔ موصوفہ، حیدرآباد کے علمی و ادبی افق پر اپنے زور خطابت، تبحر علمی اور لیاقت اور دانشوری کے سبب بلا شبہ "بلبل دکن" کی حیثیت سے بامِ شہرت کو پہنچیں۔
پروفیسر فاطمہ پروین 30 ڈسمبر 1953ء کو حیدرآباد میں پیدا ہوئیں، آپ کے والد جناب سید محمد علی صاحب طوبیؔ محکمہ آبکاری میں سپرنٹنڈنٹ کے عہدے پر فائز تھے، وہ شعر وادب کااچھا ذوق رکھتے تھے، آپ کی والدہ رضیہ بیگم شاعرہ تھیں. وہ ریاضتؔ تخلص کرتی تھیں،ان کے شعری مجموعے: اشک غم اول، اشک غم دوم ، مراثی کے مجموعے ، خمسہ مراثی ، مشاہدہ غم اور چشم غم شائع ہوکر مقبول ہوچکے ہیں ۔پروفیسر فاطمہ پروین کا تعلق ایک علم پرور گھرانے سے رہا ہے ۔ ان کی ابتدائی تعلیم بھی اچھے انداز میں ہوئی ، انہوں میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کی تکمیل کے بعد اعلی تعلیم کے لئے جامعہ عثمانیہ کا رخ کیا اور 1972ء میں یہاں سے بی ایس سی کی ڈگری حاصل کی، انہوں نے اپنے تعلیمی سفر کو آگے بڑھاتے ہوئے ، ایم اے اردو میں داخلہ لیا اور 1975ء میں امتیازی کامیابی حاصل کرتے ہوئے گولڈ میڈل حاصل کیا، تعلیمی سفر یوں ہی جاری رہا. 1979ء میں ایم فل کامیاب کیا، ایم فل کی کامیابی کے بعد جامعہ عثمانیہ سے ہی پی ایچ ڈی میں داخلہ لیا. جہاں ان کے مقالہ کا موضوع ''غواصی کی شاعری کا تنقیدی مطالعہ '' تھا، 1989ء میں ڈاکٹریٹ کی تکمیل کی۔
پروفیسر فاطمہ پروین صاحبہ کی شادی 1980ء میں جناب ڈاکٹر محمد مجید اللہ صدیقی سے ہوئی وہ سنگھی کالج آف کامرس اینڈ سائنس میں وائس پرنسپل تھے ۔ مجیداللہ صدیقی ایک اچھے شاعر تھے جن کا شعری مجموعہ ''درد کے اتھاہ سمندر میں'' اردو حلقوں میں کافی مقبول ہوا تھا ۔آپ کو اللہ رب العزت نے دوبیٹیاں اور دو بیٹیوں سے نواز ہے ۔
پروفیسر فاطمہ پروین کے تدریسی سفر کا آغاز 1976ء میں بحیثیت جونیئر لیکچرار اردو، عمل میں آیا. انہوں نے جونیئر لیکچرار کی حیثیت سے 14سال تک خدمات انجام دیں، 1990ء میں آپ کا تقرر بحیثیت لیکچرار شعبہ اردو جامعہ عثمانیہ میں ہوا۔ آپ کی خدمات کو دیکھتے ہوئے 1997ء میں بطور ریڈر ترقی دی گئی اور 2005ء میں پرفیسر عہدے پر ترقی ہوئی ۔2006ء میں چیئر پرسن بورڈ آف اسٹڈیز مقرر ہوئیں ۔کچھ عرصہ بعد صدر شعبہ اردو بنائی گئیں۔ 2012ء میں انھیں، بحیثیت وائس پرنسپل، آرٹس کالج عثمانیہ یونیورسٹی کے ترقی دی گئی ان کے لیے یہ ایک بہت بڑا اعزاز تھا۔ 30 ڈسمبر2013ء کو وہ اپنے عہدے سے سبکدوش ہوئیں۔ سبکدوشی کے بعد سے وہ امبیڈکر اوپن یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے وابستہ رہیں۔
27 اگسٹ2021 بروز جمعہ صبح 9 بجے، مختصر سی علالت کے بعد ان کا انتقال ہوگیا گویا اردو سمیناروں اور ادبی اجلاسوں میں گونجنے والی بلبل دکن کی آواز ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی۔
پروفیسر
فاطمہ پر وین کی پہلی تصنیف'' اختر انصاری کی شاعری کا تنقید مطالعہ ''1980ء میں
شائع ہوئی ۔ان کی دیگر تصانیف میں کربِ کربلا، زاویہ نگاہ2005ء ،ننھی نظمیں(تلگو
سے ترجمہ)،کلاسیکی شاعری کا مطالعہ2009ئ،اشک غم ،دکنی ادب کا مطالعہ2019،پروفیسر
مغنی تبسم ایک روشن چراغ تھا نہ رہا'2019 شامل ہیں ۔ان کی تصانیف کو اردو اکیڈمی
آندھراپردیش ،تلنگانہ اسٹیٹ اردو اکیڈمی ،مغربی بنگال اردو اکیڈمی نے انعامات
نوازا ہے ۔2011ء میں اردو اکیڈمی آندھراپردیش کی جانب سے انھیں یونیورسٹی اساتذہ
کے زمرے میں'' بسٹ ٹیچر ایوارڈ'' سے نوازا گیا ۔2013ء میں اردو اکیڈمی آندھراپردیش
نے ان کے علمی وادبی خدمات کے پیش نظر باوقار کارنامہ حیات ایورڈ عطا کیا۔ان کے
علاوہ دیگر اداروں اورانجمنوں کی جانب سے ان کی خدمات کے اعتراف میں انعامات و
اعزازت سے نواز ہے ۔محترمہ فاطمہ پروین صاحب نے ملک و بیرون ملک مختلف سمیناروںاور
ورکشاپ میں عثمانیہ یونیورسٹی کی نمائندگی کی ہے ۔انہوں نے لندن کا بھی علمی سفر
کیا ہے ۔پروفیسر فاطمہ پروین کی خدمات کے اعتراف میں ایوان فنکار اورگواہ اردو
ویکلی جانب سے میں 2014ء میں '' بلبل دکن ''کا خطاب عطا کیا گیا۔
پروفیسر فاطمہ پروین کی شخصیت
اپنی ذات میں ایک انجمن ہے ۔فرد کی صلاحیتیں خدا کی ایک عظیم نعمت ہے اور شخصیت کی
تعمیر میں خاندان کا اثر بھی نمایاں ہوتا ہے ،پروفیسر فاطمہ پروین کو اللہ رب
العزت نے متنوع صلاحیتوں سے نوازا ہے ،ساتھ ہی ان کا تعلق ایک علمی گھرانے سے رہا
ہے جس کے اثرات ان کی تعلیم و تربیت پر مرتب ہوئے ہیں ان کی شخصیت کو ہم بحیثیت
استاد،محقق، نقاد،مترجم،مقرر اور بحیثیت منتظم کے دیکھ سکتے ہیں۔
بحیثیت استا د : پروفیسر فاطمہ پروین کا تدریسی سفر کافی
طویل ہے انہوں نے 1976ء میں بحیثیت جونیئر لیکچرار کے اپنی تدریسی خدمات کاآغاز
کیا تھا جو 2013ء تک جاری رہا اپنی ملازمت کے دوران انہوں نے اپنے پیشہ کا مکمل
طور پر حق ادا کیا اور پوری دیانت داری سے اپنی ذمہ داری کو انجام دیتی رہیں،وہ
ایک خوش اخلاق نگران بھی تھیں جن کی نگرانی میں درجنوں طالب علموں نے اپنا تحقیقی
سفر مکمل کیا عموماََ جامعات میں پی ایچ ڈی کی تکمیل میں سب سے بڑی رکاوٹ ریسرچ
سپروائز کا اپنے شاگرد وںسے درست رویہ ہے ،لیکن میرے علم کے مطابق جن تحقیق کاروں
کو سوپروائزر کی حیثیت پروفیسر فاطمہ پروین کا ساتھ ملا ان کے بڑی آسانی کے ساتھ
تحقیقی مقالہ مکمل ہوئے اورانکے شاگردوں نے ان سے آداب و اخلاق سیکھا،اس کی مثال
میں خود بھی ہوں میں محترمہ کے رویہ سے اتنا زیادہ متاثر ہوا کہ میں نے اپنے کام
میں کوئی تساہلی نہیں کی اور وقت مقررہ پر اپنا کام مکمل کیا ،حالانکہ اس وقت
میڈیم آرٹس کالج کی وائس پرنسپل تھیں اپنی مصروفیات کے باوجود انہوں نے کبھی مجھے واپس
نہیںکیااور نا کبھی سختی سے پیش آئیں وہ مجھے اپنے ماں کی طرح نصیحت فرماتیں اور
میری خوب ہمت افزائی کرتیں تھیں، میری شخصیت کی تعمیر میں ان کا نمایاں کرادر رہا
ہے۔میرے ساتھ ساتھ دیگر اسکالرس سے بھی میں نے سنا ہے کہ ان کا رویہ اپنے ہر ایک
طالب علم کے ساتھ یکساں ہےں۔ میرے پیشرو تحقیق کار 'ڈاکٹر جاوید کمال نے اپنے
مضمون شفیق استاد،ہمدرد انسان،منکسرالمزاج شخصیت پروفیسر فاطمہ پروین '' میں لکھا
ہے:
'' میری استاذ محترمہ پروفیسر
فاطمہ پروین صاحبہ کا نام جب بھی ذہن میں آتا ہے ایک شفیق استاد ،ہمدرد انسان اور
منکسر المزاج شخصیت کا پیکر ابھر کر سامنے آجاتا ہے اور میراسراحتراماََ خودبخود
جھک جاتا ہے ۔سچ بات تو یہ ہے کہ ان ہی شفیق استاد ہی کی بدولت بڑی آسانی سے ڈاکٹر
جیسا باوقا ر لفظ تادم حیات میرے نام کا جزبن گیا جس کی تمنا بیسوں اسکالرس کے دل
میں ہوتی ہیں ''۔١؎
ڈاکٹر سید فاضل حسین نے ''ممتا
کا آنچل ''کے عنوان پر پروفیسر فاطمہ پروین پر مضمون لکھا ہے جس میں بہت سے واقعات
کو انہوں نے رقم کیا اور محترمہ کے الفاظ کوبطور نصیحت ممتا کے آنچل سے تعبیر کیا
ہے ۔سید فاضل حسین پرویز نے پروفیسر فاطمہ پروین سے جو کچھ سیکھا اس کا تذکرہ کرتے
ہوئے لکھا ہے:
''محترمہ سے جتنے بار ملنے کا موقع ملا ہر بار ان سے کچھ
نہ کچھ سیکھا،روداری،مروت،اخلاص،باہمی احترام،کسی سے اختلاف کے باوجود اسے اہمیت
دینا۔نہ تو کسی کو کمزور سمجھنا اور نہ اپنی کمزوریوں سے غافل رہنا،جو ذمہ داری
قبول کی جائے اسے اتنی ہی ذمہ داری سے پوری بھی کی جائے استاد اور شاگرد کے درمیان
باہمی اعتماد کا رشتہ کیسے برقرار رکھا جائے اور یہی میری پانچ سال محنت کاحاصل ہے
''٢؎
بحیثیت محقق : پروفیسر فاطمہ
پروین نے بیسوں تحقیق کام انجام دیئے جن میںایم اے کا مقالہ'' اخترؔ انصاری کی شاعری
کا تنقید مطالعہ''1975، ایم فل کا تحقیقی مقالہ 'سترہویں صدی میں ہندالمانی
عناصر''1979اور پی ایچ ڈی کا تحقیقی مقالہ ''غواصی کی شاعری کا تنقیدی مطالعہ ''
1989ء شامل ہیں،ان کے علاوہ دیگر تصانیف کی اشاعت اور سیکڑوں سمیناروں میں پیش کئے
گئے اپنے شامل ہیں جو ان کے تحقیقی فکراور شعور کو نمایاں کرتے ہیں ،ان کے علاوہ
محترمہ نے مختلف جامعات کی نصابی کتابوں کی ترتیب میں بھی کافی اہم کردار ادا کیا
ہے ۔
بحیثیت نقاد: پروفیسر فاطمہ پروین ایک ستھرا تنقیدی مزاج
بھی رکھتی ہیں جہاں ایم اے اردو میں ان کی تحقیق کا آغاز ہوا وہیں ان کی تنقیدی
صلاحیتیں فروغ پانے لگی جس کا اندازہ ان کی تصنیف '' اختر ؔانصاری کی شاعری کا
تنقید مطالعہ'' سے ہوتا ہے ۔پروفیسر مغنی تبسم نے
پروفیسر فاطمہ پروین کے تنقیدی شعور سے متعلق لکھا ہے :
''فاطمہ پروین نہایت انہماک کے
ساتھ اس کام میں لگی رہیں،انھوں نے تلاش اور جستجو سے اختر انصاری کی تقریباََ
سبھی تحریریں فراہم کیں اور طالب علمانہ لگن کے ساتھ ان کامطالعہ کیا پھر ہر صنف
ادب کے فنی اصولوں کی روشنی میں معروضیت کے ساتھ ان کا تنقیدی جائزہ لے کر اخترؔ
انصاری کے ادبی مرتبے کو متعین کرنے کی کوشش کی ہے ۔''٣؎
پروفیسر فاطمہ پروین نے اخترؔ
انصاری کی شاعری کا تجزیہ کرتے ہوئے انھیں جمال پرست شاعر قرار دیاہے۔ان کی تنقیدی
فکر دیکھیں''اخترؔانصاری ایک جمال پرست شاعر ہیں ،کیٹسؔاور شبلیؔ کی طرح انھوں نے
زیادہ تر حسن و عشق کے گیت گائے ہیں ۔اپنی شاعری کے آغازمیں وہ ادب برائے ادب کے
نظرےے کے قائل تھے اور آج تک بھی وہ ادب اورشاعری کے جمالیاتی پہلوپر زیادہ زور
دیتے ہیںان کے بیش تر قطعات حسن اور کیفیات عِشق سے لبریز ہیں،اپنی بڑھی ہوئی جمال
پرستی کا انھیں احساس بھی ہے ''٤؎
پروفیسر فاطمہ پروین کا تنقیدی
سرمایہ کچھ زیادہ نہیں ہے ان میں اختر انصاری کی شاعری کا تنقید مطالعہ،زاویہ ئ
نگا،دکنی ادب کا مطالعہ شامل ہیں۔ انہوں نے اپنی ان کتابوں میں جن تنقیدی موضوعات
کا تجزیہ کیا اوربحث کی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے ان کے اندر تنقیدی ذہن ہے اور
تنقیدی شعور بھی بہتر پایا جاتا ہے۔
بحیثیت متر جم: پروفیسر فاطمہ پروین نے ترجمہ نگاری کے
بھی کام انجام دئے ہیں بحیثیت مترجم انہوں نے ڈاکٹر گوپی کی تلگو شاعری میں صنفِ
سخن ''نانی لو''کا اردو میں ترجمہ ننھی نظمیں کے عنوان سے کیا ہے ۔پروفیسر مظفر شہ
میری وائس چانسلر عبدالحق اردو یونیورسٹی پروفیسر فاطمہ پروین کی ترجمہ نگاری سے
متعلق رقم طرازہیں''پروفیسر فاطمہ کے ترجمے کو تین بڑے حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا
ہے ۔اولاَ۔ من وعن ترجمہ ،ثانیاََ آزاد ترجمہ اور ثالثاََ نئے ترجمے!من و عن ترجمہ
میں پروفیسر فاطمہ نے لفظ بہ لفظ ،نظم کی روح کے ساتھ ترجمہ کرنے میں کامیابی حاصل
کی ہے۔ایسا لگتا ہے جیسے تلگو الفاظ نکال کر ان کی جگہ اردو الفاظ رکھ دئیے ہیں
۔''٥؎
ننھی نظموں کے علاوہ بھی انہوں
نے علمی ضرورت کے تحت بھی ترجمہ کئے ہیں ،بہرحال ان کے اندر ایک اچھے مترجم کی
خصوصیات پائی جاتی ہی ترجمہ کے مفہوم کو اپنے مخصوص انداز میں پیش کرنااور زبان
وبیان کی نزاکتوں کو مدنظر رکھ کر ترجمے کئے ہیں۔
بحیثیت مقرر:تقریر سے متعلق کہا گیا تقریر اس مہارت فن
کا نام ہے جس کے ذریعے کوئی شخص کسی متعین موضوع ،متعین وقت میں،مکمل،مسلسل اور
موثر اظہار خیال کرسکتا ہے ۔ تقریر کا یہ فن اللہ رب العزت نے خصوصی طور پر
پروفیسر فاطمہ پروین کو عطا کیا ہے ان کی تقریر کوسن کر ہر کوئی حیران و ششدر رہے
جاتا ہے ،الفاظ موتیوں کا روپ اختیار کرلیتے ہیں،جب وہ تقریر کررہی ہوتی ہیں تو
الفاظ ایک تسلسل کے ساتھ زبان سے ادا ہوتے ہیںایسا محسو س ہوتا ہے کہ الفاظ ہاتھ
باندھے کھڑے ہوںوہ ہر موضوع پر انتہائی بصیر ت افروز اور سحر انگیز خطاب سے نوازتی
ہیں سننے والے عش عش کرنے لگتے ہیں۔جب کسی موضوع پر وہ اپنی تقریر ختم اختتام پر
لے آتیں ہیں تو سامعین پوری طرح اطمنان کااظہار کرتے ہیں ۔مجھے اچھی طرح یاد ہے
نظامس ٹرسٹ کی جانب سے 4جون2011ء کو پرنسس عیسن کالج پرانی حویلی حیدرآباد ،آصف
سابع نواب میر عثمان علی خان کی 129ء ویں یوم پیدائش کے موقع پر منعقد یادگار
لیکچر کے لئے پروفیسر فاطمہ پروین کو مدعو کیا گیا تھا، میں نے بھی محترمہ کو سننے
کے لیے اس پروگرام میں شرکت کی پہلا موقع تھا کے محترمہ کو ایک بہترین مقرر کی
حیثیت سے سن رہا تھا اورساتھ ہی رپورٹ بھی لکھ رہا تھامیںان کی تقریر سے بہت زیادہ
متاثر ہوا اوراس پروگرام کی طویل رپورتاژ لکھ ڈالی ، جس سے میری رپورتاژ نگاری کا
آغاز ہوتا ہے اور چند سال بعد میری ایک تصنیف بھی اس صنف پر شائع ہوئی ۔
پروفیسر فاطمہ پروین کی تقریر
کا سب سے بڑا کمال یہی ہے کہ وہ سامعین کو اپنا قائل اور ہم نوا بنا لیتی تھیں۔میر
ے اندازے کے مطابق پروفیسر فاطمہ پروین نے اپنے ملازمت کے سفرکے دوران سیکڑوں
خطابت دئے ہیںاور حیدرآباد میں منعقد ہونے والی ادبی محفلوں میں صدارت اور مقرر کی
حیثیت سے محفل کی رونق میں اضافہ کیا ہے ،حیدرآباد کی اکثر ادبی سرگرمیوں کی
پروفیسر فاطمہ پروین روح رواں ہے ۔
پروفیسر فاطمہ پروین میں غیر
معمولی تنظیمی صلاحیتیں تھی وہ ایک بہترین منتظم بھی ہے دوران ملازمت کالج اور
یونیورسٹی کی سطح پر مقابلہ جات کا انعقاد،ورکشاپ اور سمینار کا انعقاد،توسیعی
لیکچر کا اہتمام ہر کام میں وہ متحرک رہیں اور بہتر منصوبہ بندی ،باہمی ربط کے
ذریعے انہوں نے ہر پروگرام کے کامیاب انعقاد میں اپنا نمایاں کردار ادا کیا،اکثر
پروگراموںکی نظامت ان ہی کے ذمہ ہوکرتی تھیں انہوں نے بحیثیت صدر شعبہ اردو عثمانیہ
یونیورسٹی کے 90سالہ جشن میں بھی نمایاں رول ادا کیا اور اس موقع پر مجلہ عثمانیہ
کی اشاعت بھی عمل میں لائیں، اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے بحیثیت وائس پرنسپل آرٹس
کالج کے بھی کئی ایک پروگراموں کو منظم انداز میں انجام دیا۔وہ شہر کے مختلف ادبی
اداروںو انجمنوں سے بھی وابستہ ہیں جن میں اقبال فاونڈیشن،حیدرآباد اکیڈمی اور
ادارہ شعر وحکمت ۔ان اداروں کے مختلف پروگراموں کے کامیاب انعقاد میں ان کا اہم
کردار رہاہے ،ان باتوں سے ان کی تنظیمی صلاحیتوں کا خوب انداز ہوتا ہے۔
بُلبل دکن پروفیسر فاطمہ پروین
کی ہمہ جہت صلاحیتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر آمنہ تحسین،شعبہ ویمنس ایجوکیشن
،مولاناآزاد نیشنل حیدرآباد نے لکھا ہے '' پروفیسر فاطمہ پروین ایک شاعرہ کی حیثیت
نہیں رکھتیں،لیکن نثر میں شاعری کرنے والے چند ایک غیر معمولی افراد کی فہرست میں
ضرور شامل ہوسکتی ہیں ،وہ ایک فعال اور ہمہ جہت شخصیت کی مالک ہیں ،ان کے کارنامے
علمی ،ادبی ،سماجی ،تہذیبی شعبوں پر محیط ہیں ۔ان کی علمیت اور فعالیت کی جہات کو
اگر دیکھا جائے تو ان کے جو اہم ترین پہلو واضح ہوتے ہیں وہ ہیں
،تدریس،تحقیق،تنظیم ،اور تقریر۔ان چاروں شعبوں میں ان کے کارنامے مساویانہ اہمیت
رکھنے کے باوجود ان سب میں ان کی خطابت کاپہلو مزید اہمیت کا حامل اور غالب نظرآتا
ہے ۔''٦
ڈاکٹر فاضل حسین پرویز گواہ
ویکلی نے ادارہ ایوان فنکار کے ساتھ 2014 پروفیسر فاطمہ کے جلسہ اعتراف خدمات کا
انعقاد عمل میں لایا تو اس موقع پر انہوںنے احمد علی برقیؔاعظمی سے پروفیسر فاطمہ
بیگم پروین کی خدمات پر منظوم تاثرات لکھنے کی فرمائش کی تھی ،جس کو گواہ اردو
ویکلی کے پروفیسر فاطمہ پروین نمبر میں بھی شائع کیا ۔ملاحظہ ہو:
فاطمہ بیگم ہیں فخر روزگار
شخصیت ہے ان کی وجہہِ افتخار
ان کی علمی کاوشیں ہیں لازوال
دلنشیںہیں ان کے ادبی شاہکار
شعبہئ اردو سے وابستہ تھیں وہ
جس کو حاصل ہے جہاں میں اعتبار
اپنی معیاری کتابوں کے لئے
ہیں کئی اعزاز سے وہ ہمکنار
ان کو ہے تدریس سے فطری لگاؤ
ان کے اردو ترجمے ہیں شاندار
کام سے اپنے بڑھایا عمر بھر
اپنی تہذیب و ثقافت کا وقار
اختر انصاری پہ ان کی نقد سے
ان کا معیار شرف ہے آشکار
ان کے گلہائے مضامیں آج بھی
گلشنِ اردو میں ہیں مثلِ بہار
وہ رہیں گی زیب تاریخ ادب
ہیں جو اقلیم ِادب کی تاجدار
معترف ہے ان کی عظمت گواہ
نامور لوگوں میں ہے جن کا شمار
تصانیف کا جائزہ :
پروفیسر مغنی تبسم نے پروفیسر
فاطمہ پروین کی پہلی کتاب'' اختر انصاری کی شاعری کا تنقید مطالعہ ''کا مقدمہ لکھا
ہے جس میں پروفیسر فاطمہ صلاحیتوں کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے ''اس کتاب کے مطالعے
سے اندازہ ہوگا کہ فاطمہ پروین ادب کا ستھرا ذدوق رکھتی ہیں،ان کامطالعہ وسیع ہے
۔تنقید میں انہوں نے کسی ایک دبستان کی پیروی کرنے کے بجائے سبھی دبستانوں سے بقدر
ضرورت استفادہ کیا ہے ،دوسرے نقاد وں کی آرا سے متاثر ہونے کے بجائے اپنے ذوق ادب
اور مطالعہ پر بھروسہ کیا ہے ،تنقید نگاری میں انہوں نے جس خود اعتمادی کا اظہار
کیا ہے اس سے توقع بندھتی ہے کہ وہ آئندہ چل کر ایک اچھی نقاد ثابت ہوں گی ۔''٧؎
پروفسیر فاطمہ پروین کی
صلاحیتوں کے پیش نظر ان کے استاد محترم نے 1980ء میں جوپیشن گوئی کی وہ آج درست
ثابت ہوئی آج ان کا شمار اردو کے اہم نقادوں میں ہوتاہے ،انہوں نے سخت محنت،ریاضت
اور سنجیدہ جدوجہد سے ادب میں ایک مقام بنانے میں کامیاب حاصل کی ہیں ۔
پروفیسر فاطمہ پروین نے اپنی
پہلی تصنیف '' اختر ؔانصاری کی شاعری کا تنقید مطالعہ ''میں جدید شعراء میں اخترؔ
انصار کی اہمیت اور ان کے کارناموں کو بیان کرتے ہوئے لکھاہے۔''جدید شعرائے اردو
میں اخترؔ انصاری کی ااہمیت اور انفرادیت مسلمہ ہے وہ جس پایہ کے شاعرہیں اس درجہ
کے افسانہ نگار اور نقاد بھی ہیں،انگریزی اور دوسری زبانوں کے ادبیات میں ایسی
مثالیں بکثرت ملیں گی لیکن اردو میں ایسی ہمہ گیر شخصیتیںخال خال ہی نظر آتی ہیں،اخترانصاری
کا سب سے اہم اور ہمیشہ زندہ رہنے والا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے قطعہ جیسی
روایتی صنف کو نیا قالب اور نئی روح عطا کی ۔ان کے دیگر تخلیقی اور تنقیدی
کارناموں سے صرف ِنظر بھی کیا جائے تو وہ صرف اپنے قطعات کی وجہ سے اردو شعراء میں
ایک نمایاں مقام پانے کے بجا طور پر مستحق ہیں۔''٨؎
پروفیسرفاطمہ پروین نے مطالعہ
کے مفہوم ،اقسام پر اپنی کتاب کلاسیکی شاعری کا مطالعہ میں روشنی ڈالی ہیں اوراس
متعلق لکھا ہے ''مطالعہ۔۔ایک ایسا لفظ جس میںمعنی تہہ در تہہ چھپے ہیں،سر سری نظر
بھی مطالعہ،گہری نظر بھی مطالعہ،حاصلِ مطالعہ،صاحبِ مطالعہ کے ذوق پر منحصر۔غر ض
اس اتھا سمندر میں،میں اپنی استعداد کے موافق شامل ہوئی ہوں۔۔غزل ،مرثیہ ،قصیدہ
اردو شاعری کی کلاسیکل اصناف اپنے چند اٹوٹ حصوں کے ساتھ میرے اور آپ کے مطالعہ کی
کڑی بن کر کتابی شکل میں سامنے ہیں۔''٩؎
پروفیسر فاطمہ پروین نے ڈاکٹر
گوپی کی ''نانی لو'' کا ترجمہ اردو میں ننھی نظمیں کے عنوان سے کیا ہے ۔ڈاکٹر گوپی
نے تلگو شاعری میں صنفِ سخن ''نانی لو''کو ایجاد کیا ۔ان کے اس کارنامہ سے متاثر
ہوکر پروفیسر فاطمہ نے نانی لو کا ترجمہ'' ننھی نظمیں'' کے عنوان سے کیا ہے۔
پروفیسر فاطمہ پروین کی ترجمہ
نگاری ننھی ننھی نظموں کے حوالے سے کا جائزہ لیتے ہوئے پروفیسر مظفر شہ میری وائس
چانسلر عبدالحق اردو یونیورسٹی نے لکھا ہے ''مجھے یہ کہنے دیجئے کہ پروفیسر فاطمہ
کے ان ترجموں کو پڑھ کراردو کا کوئی بھی قاری اس طرح لطف اندوز ہوسکتا ہے جیسے تلگو
کاقاری ان کی اصل کو پڑھ کر۔ یہ ترجمہ محض نرے ترجمے نہیں ہیں بلکہ ان میں اصل
نظموں کی روح سمیٹ کر آگئی ہے۔جس کے لیے پروفیسر فاطمہ قابلِ مبارک باد ہیں۔۔ان
نظموں کے بالمقابل میں تلگو میں جونظمیں تحریر ہیں وہ بالکل مختلف ہیں ،اس لیے
گماں ہوتا ہے کہ ان کے بدلے نئی نظموں کو لکھ دیا گیا ہے ،پروفیسر فاطمہ نے تلگو
کی ایک مقبول اور نئی صنف سخن کا ترجمہ پیش کرکے اردو قارئین کے علم میں اضافہ
کرنے کے علاوہ ان کی جمالیاتی تسکین کا اہتمام بھی کیا ہے ۔''١٠؎
پروفیسر فاطمہ پروین نے
''پروفیسر مغنی تبسم ایک روشن چراغ تھا نہ رہا'' کے عنوان سے پروفیسر مغنی شخصیت
اور خدمات پر یہ کتاب ترتیب دی ہے اس کتاب کے آغاز میں کتاب کے اشاعت کے مقصد اور
پروفیسر مغنی کی خدمات کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے ''شاعر،محقق،نقاد،استاد،مدیر
،اردو دنیا کی مشہورو مقبول شخصیت عالیجناب پروفیسر مغنی تبسم مرحوم کے بارے میں
اس کتاب کامقصد علم وادب کی منّور کرنوں کو آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ رکھنا ہے
تاکہ اس کی روشنی میں وہ اپنے مسقبل کی صورت گری کرسکیں۔پروفیسر مغنی اپنی ذات میں
ایک انجمن تھے۔شعر وادب کی خدمت میںہمیشہ مصروف رہے ،ان کی تحریروں کا جائزہ آسان
کام نہیں ،مختلف اور متعداد شعبہ ئ جات میں موصوف کی دلچسپیاں ان کی ست رنگی شخصیت
کا حصہ رہیں،اس کتاب کے توسط سے ان کی شخصیت کا اجمالی خاکہ پیش کرنے کی کوشش کی
جارہی ہے تاکہ آنے والے طالب علم اس نابغہئ روزگار شخصیت سے واقفت حاصل کرکے اپنی
صلاحیت کے مطابق ان سے استفادہ کرسکیں۔'' ١١؎
پروفیسر فاطمہ پروین ملازمت سے
سبکدوشی کے بعد تصنیف و تالیف میں لگی ہوئی ہیں ۔امید کی جاتی ہے کہ تحقیق و تنقید
کے شعبے میں وہ مزید شاہکار پیش کریں گی۔ وہ حیدرآباد میں منعقد ہونے والی اکثر
ادبی محفلوںمیں شرکت کرتی ہیں اور مقدور بھر تلنگانہ کے دیگر اضلاع میں منعقد ہونے
والے اردو سمیناروں میں شرکت کرتی ہیں اور اپنے شاگردو ں کی حوصلہ افزائی کرتی
رہتی ہیں۔ امید کی جاتی ہے کہ بلبل ہند سروجنی نائیڈو کے اس شہر اردو حیدرآباد دکن
سے تعلق رکھنے والی بلبل دکن پروفیسر فاطمہ پروین اپنی شعلہ بیان خطابت 'اپنی علمی
لیاقت اور اردو زبان سے اٹوٹ محبت کا سلسلہ یوں ہی جاری رکھیں گی اور اہل اردو ان
کے ہمہ جہت کارناموں سے مستفید ہوتے رہیں گے۔
حواشی :
١)ڈاکٹر جاوید کمال
،گواہ اردو ویکلی حیدرآباد،7تا13فروری 2014،ص13
٢)ڈاکٹر سید فاضل
حسین پرویز،گواہ اردو ویکلی حیدرآباد،7تا13فروری 2014،ص16
٣)پروفیسر مغنی
تبسم'' اختر ؔانصاری کی شاعری کا تنقید مطالعہ '' مقدمہ،ص9
٤)پروفیسر فاطمہ
پروین' اخترؔ انصاری کی شاعری کا تنقید مطالعہ '' ص99
٥)پروفیسر مظفر شہ
میری،پروفیسر فاطمہ پروین کی ترجمہ نگاری ،گواہ اردو ویکلی حیدرآاباد،7تا13فروری
2014،ص14
٦)ڈاکٹر آمنہ تحسین
،پروفیسر فاطمہ بیگم پروین ۔صنّاع کلام،گواہ اردو ویکلی حیدرآاباد،7تا13فروری
2014،ص15
٧)پروفیسر مغنی
تبسم'' اختر انصاری کی شاعری کا تنقید مطالعہ '' مقدمہ،ص10,9
٨)پروفیسر فاطمہ
پروین'' اختر انصاری کی شاعری کا تنقید مطالعہ '' حرف آغاز،ص5
٩)پروفیسر فاطمہ
پروین،کلاسیکی شاعری کا مطالعہ ،ص٩
١٠) پروفیسر مظفر شہ میری ،پروفیسر فاطمہ پروین کی ترجمہ نگاری ،گواہ اردو
ویکلی حیدرآاباد،7تا13فروری 2014،ص14
١١)پروفیسر فاطمہ پروین،پروفیسر مغنی تبسم ایک روشن چراغ تھا نہ رہا،ص٧
if you have any doubts.Please let me know